اس وقت پوری دنیا اسرائیل حماس کے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے بے چینی کا شکار ہے، کچھ سوچ رہیں کہ عالمی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ یہ اسرائیل کی ایک حکمت عملی ہے تاکہ باقی ماندہ فلسطین کو بھی قبضے میں لیا جاسکے۔
کچھ کا خیال ہے کہ ایران حماس اور حزب اللہ کے زریعے یہ سب کچھ کا ذمہ دار ہے کچھ کیا خیال ہے کہ نارتھ کوریا کی حماس کے ساتھ میزئلوں کی ڈیل اسکی ایک اہم وجہ ہے۔ ان سب میں قرین اقیاس کیا ہے اسکو کیسے واضح طریقے سے سمجھا جاسکتا ہے۔
برطانوی تھینک ٹینک چیٹم ہاوس کے سینئر محقق مسٹر اینڈ ی کارڈسن کا کہنا ہے کہ بیلفورہ ڈیکلریشن سے لیکر اب تک ہونے والی تمام مہمات میں کہیں نہ کہیں برطانیہ کے منصوبے اور امریکا ایما کا عمل دخل ہے۔ یہ ایک طرح سے عالمی حکمت عملی ہے جس کے تحت مشرق وسطی میں اپنا اثرو رسوخ بڑھنا اور وہاں تمام راستوں کو بے چین رکھنا تاکہ وہ کبھی بھی کسی محاذ پر انکا سامنا نہ کرسکیں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ اسرئیل اگر اپنے پیسوں سے چاہے بھی تو دنیاعرب ممالک کے جتنی فوج تشکیل نہیں دے سکتا ہے،اسکی ایک وجہ یہودی آباد ی کا تناسب ہے۔ اسرائیلی افواج کی تعداد کسی بھی قسم کی گوریلا جنگ کےلئے ناکافی ہے۔
اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر وہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنالے تو آسانی سے بیرونی خطرات کو روک سکتا ہے حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے، حماس گوریلا فورسز کی آمد کے بعد سے ابتک اسرائیلی فورسز کو مسلسل پسپائی کا سامنا ہے تاکہ اسرائیلی فورسز اپنا غصہ قریبی علاقوں میں بمباری کرکے نکال رہے ہیں یا یوں سمجھ لی لجیئے کہ وہ حماس کو فلسطین آبادی پر بمباری سے ڈرا کر روکنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ حماس کو نکلنے پر مجبور کیا جاسکے۔